Skip to main content

شبان المسلمین ایک تحریک کا نام ہے جو نوعِ انسانی کے سامنے اسلام کے عادلانہ انقلابی تصور کو پیش کرنا چاہتی ہے اور اس انقلابی تصور کی بنیاد پر ایسا معاشرہ تشکیل دینے کا پروگرام بھی اپنے پاس رکھتی ہے جس میں آج کے دور کے تمام جدید مسائل کے قرآن و سنت کی روشنی میں حل پیش کیے گئے ہوں

قرآن و سنت میں "اسلام" کو "دین" کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے:-۔

اِنَّ الدِّيۡنَ عِنۡدَ اللّٰهِ الۡاِسۡلَامُ

'اللہ کے نزدیک حقیقی دین صرف اسلام ہے!'

دین نام ہے اُس منظم، منضبط، جامع اور اکمل ضابطے کا جو انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی گوشوں کو اپنے مدار میں لاتا، اپنے رنگ میں رنگتا اور اپنی تعلیمات کے پیکر میں ڈھالتا ہے۔ کوئی بھی پہلو اُس کی دسترس سے باہر نہیں رہتا. اسلام اپنے پیروؤں اور ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے

اُدۡخُلُوۡا فِى السِّلۡمِ کَآفَّۃ

 (داخل ہو جاؤ دین میں پورے کے پورے)"

چنانچہ:

  • اُن کے افکار و عقائد کو ہر طرح کی ثنویت، تثلیث، تشکیک سے پاک کر کے اَحدیت کے دائرہ میں لاتا ہے
  • اُن کے اخلاق و کردار کو مطھّر اور پاکیزہ بنا کر اِس قابل کرتا ہے کہ وہ ہر آن، ہر لحظہ "رضائے الٰہی اور فلاحِ اُخروی" کو مطمعِ نظر بنائیں اور وہ مطلوب معاشرہ قائم و برپا کرنے کی جدوجہد میں لگ جائیں جس کی کلید "عبادتِ رب اور اتّباعِ رسولﷺ" ہو.
  • انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر ہر میدان میں کارکردگی اور کارگزاری کے ایسے شواہد و مناظر منصّۂ شہود پر آ جائیں جو عالَمِ انسانیت کیلئے وجۂ ترغیب و تقلید بنیں
  • ۔اُنہیں دین کی اقامت کے بارِ گراں کی ادائیگی کیلئے اُس منہج کو اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے.جو جنابِ نبی اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس اور وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ کی جماعت کا طریقہ کار تھا

شبان المسلمین بحمداللہ اُس تحریک کا نام ہے جو اِنہی اغراض و مقاصد کے بالفعل حصول کیلئے برپا کی گئی ہے اور جو پاکستان کو "سایۂ خدائے ذوالجلال" کے مصداق دورِ جدید کی بہترین، مثالی، اسلامی، شورائی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کی ہر ممکنہ کاوش و سعی کرے گی تا کہ ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلٰى مِنهَاجِ النُّبُوَّةٍ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے، اِن شآء اللہ۔

اِس تحریک کی بنیادوں میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی دینی، تحریکی اور عمرانی فکر شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی مختلف تحاریر اور تقاریر میں ہمیشہ اُن ہستیوں کا تفصیل سے ذکر کیا جن سے اُنہوں نے کسبِ فیض کیا تھا۔ اور در حقیقت شبان المسلمین کی بنیادوں میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ذریعے اُن حضرات کی فکر شامل ہے۔ مذکورہ شخصیات کا مختصر تعارف پیشِ خدمت ہے

 

allama-iqbal-img

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ

برِّ عظیمِ پاک و ہند میں اسلام کا تھوڑا سا بھی درد رکھنے یا ملکِ خداداد پاکستان کی تاریخ سے تھوڑی سی بھی واقفیت رکھنے والا شخص علامہ اقبال کی ہمہ جہت، ہمہ گیر اور انقلابی شخصیت سے ضرور متعارف ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے ایک طرف جہاں قومی جدوجہدِ آزادی کیلئے اپنا کردار ادا کیا وہیں اُن کی شخصیت کا سب سے اہم ترین پہلو اُن کی اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کیلئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہے۔ علامہ کی شاعری بقول خود اُن کےکہ "وربہ حرفم غیرِ قرآں مضمر است" قرآنِ مجید ہی کی ترجمانی پر مبنی ہیں۔ اور بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ "علامہ اقبال پچھلی صدی کے سب سے بڑے شارحِ قرآن تھے۔" اِس کے ساتھ ساتھ علامہ نے اپنی شاعری میں اسلام کے انقلابی فکر کو نهایت خوبصورتی اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں ولولۂِ تازہ کی ایک ایسی روح پھونک دی جس نے مسلمانانِ ہند کیلئے آزادی کے سفر کو ممکن بنایا۔ یہ علامہ ہی کی شخصیت ہے کہ جس نے مولانا مودودیؒ کو حیدرآباد دکن سے پنجاب منتقل ہونے اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کیلئے اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا۔

dr-rafi-img

ڈاکٹرمحمد رفیع الدّینؒ

ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم و مغفور علامہ اقبال ہی کے شارح کہلائے جاتے ہیں۔ آپ نے اپنی تصانیف کے ذریعے علامہ اقبال کے کام کو آگے بڑھایا اور علامہ کی منظوم تعلیمات کو نثر کے پیرائے میں اعلیٰ علمی سطح پر تحقیق کے لباس سے مزیّن کر کے پیش کیا۔ آپ نے اپنی کتاب "Ideology of the Future" میں اعلیٰ علمی دلائل سے ثابت کیا کہ مستقبل میں اگر کوئی نظریہ کھڑا رہ سکے گا تو وہ صرف اور صرف نظریۂ اسلام ہو گا۔ آپ نے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ پر متعدد کتابیں اور مضامین لکھے۔ مزید یہ کہ پاکستان میں اسلامی نظامِ تعلیم کو مرتب کرنے اور اُس حوالے سے اپنی سفارشات پیش کرنے میں آپ کی گراں قدر خدمات ہیں۔ آپ نے درست نظریۂ تاریخ، صحیح اسلامی تحقیق، اسلام مخالف فلسفوں کا ابطال اور ان جیسے متعدد موضوعات کو اپنے قلم کا موضوع بنایا۔ آپ نے "حکمتِ اقبال" جیسی عظیم اور شاهکار تصنیف تحریر کی جس میں علامہ اقبال کی تعلیمات اور بالخصوص اُن کے نظریۂ خودی کو خوب واضح کیا۔ اِسی اعتبار سے ڈاکٹراسرار احمدؒ آپ کو "شارحِ اقبال" بھی کہا کرتے تھے

mahmud-img

شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ

شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ایک ایسی جامع شخصیت کے مالک تھے جن پر اہلِ سنت والجماعت کے تینوں مکاتبِ فکر (دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث) متفق تھے۔ آپ جمیعت علمائے ہند کے پہلے صدر تھے۔ انگریز کے خلاف تحریکِ آزادی کیلئے آپ کی نمایاں خدمات ہیں۔ اسی تحریکِ آزادی کیلئے آپ کی سربراہی میں ریشمی رومال تحریک بھی شروع کی گئی اور اسی سلسلے میں حج کیلئے دورانِ سفرِ حجاز آپ کی گرفتاری عمل میں آئی اور آپ نے اپنی پیرانہ سالی میں چار سال مالٹا میں جیل کاٹی۔ آپ قدیم علوم کا ایک حسین مرقّع تھے جن میں اسلاف کے کردار کی نمایاں جھلک نظر آتی تھی۔ آپ ہی کی نگاہِ عبقری نے مولانا ابوالکلام آزاد کو امام الہند ماننے کی تجویز پیش کی تھی لیکن بدقسمتی سے آپ کی اس تجویز پر عمل نہ ہو سکا۔شیخ الہندؒ نے قرآنِ مجید کا اردو زبان میں ترجمہ لکھا اور پہلے پانچ پاروں کے حواشی بھی تحریر کیے۔ آ پ کی یہ تفسیر بہت مقبول ہوئی جو آج تفسیرِ عثمانی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ آپ چودھویں صدی ہجری کے سب سے بڑے مجدّد بھی تھے۔

shabbir_ahmed_img

شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ 

شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ علمی اور تحریکی مزاج رکھنے والی شخصیت تھے۔ آپ نے اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے قرآنِ مجید کے ترجمے کے تفسیری حواشی والے کام کو آگے بڑھایا اور بقیہ پچیس پاروں کے حواشی لکھے۔ شیخ الہندؒ کا ترجمہ جو آپ کے حواشی کے ساتھ دستیاب ہے اُسے آپ کے نام ہی کی نسبت سے "تفسیرِ عثمانی" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ نے تحریکِ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پاکستان بننے کے بعد مغربی پاکستان میں پاکستان کے پرچم کو سرکاری سطح پر بلند کرنے کی ذمہ داری قائداعظم نے آپ ہی کے حوالے کی قائد اعظم کی نمازِ جنازہ بھی آ پ ہی نے پڑھائی تھی

مولانا حمید الدین فراہیؒ

مولانا حمید الدین فراہیؒ ایک خالص علمی شخصیت تھے۔ قرآنِ مجید سے محبت آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ کی علمی خدمات میں فہمِ قرآن اور تدبّرِ قرآن کے ضمن میں "نظمِ قرآن" کے پہلو کو ایک نئے انداز سے کھولنا اور واضح کرنا نمایاں ہے۔ آپ نے قرآنِ مجید کے استدلالی پہلو پر کام کرتے ہوئے خالص قرآنِ حکیم ہی کی بنیاد پر ایک نئے علمِ کلام کی بنیاد بھی رکھی۔ آپ علامہ شبلی نعمانیؒ کے شاگردِ خاص بھی تھے۔ آپ کی تحریروں کے متعلق ڈاکٹر اسرار احمدؒ اپنی کتاب "اسلام اور پاکستان" میں رقمطراز ہیں کہ "مولانا فراہیؒ کی تحریریں نہایت سادہ لیکن مدلّل ہوتی تھیں۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ

مولانا امین احسن اصلاحیؒ علامہ حمید الدین فراہیؒ کے براہِ راست شاگرد تھے۔ آپ نے اپنے استاذ کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے نظمِ قرآن کے اصولوں پر علومِ قرآن کے شیدائیوں کیلئے "مبادئ تدبّرِ قرآن" کے عنوان سے ایک شاہکار تصنیف لکھی۔ بعد ازاں اسی طرز پر "تدبّرِ قرآن" کے عنوان سے پورے قرنِ مجید کی تفسیر بھی لکھی۔ آپ جماعتِ اسلامی کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ اور بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ آپ اور مولانا مودودیؒ نے فی الواقع یک جان دو قالب کی طرح کام کیا۔ جماعتِ اسلامی میں مولانا مودودیؒ کے بعد اگر کوئی شخصیت تھی تو وہ مولانا اصلاحیؒ ہی کی ذاتِ گرامی تھی۔ آپ نے "دعوتِ دین اور اُس کےطریقِ کار" کے عنوان سے ایک معرکۃ الآراء کتاب لکھی جس میں دین کی دعوت کے تمام اصول و مبادی اور ترتیب وتدریج نیز مخاطبین کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ اِس کے علاوہ "تزکیہ نفس" کے خالص قرآنی اصول اور اُس کے طریقہ کار کو بھی نہایت خوبصورتی سے اِسی عنوان کے تحت تحریر کیا۔ توحید اور شرک وغیرۃکے موضوعات پر آپ نے اپنی کتب میں گفتگو کی ہے جسے بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ "خالص قرآنی علمِ کلام" کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ بیش بہا علمی اور تحریکی خزانہ ہے جو آپ کی دیگر کتب کی صورت میں موجود ہے

 

مولانا ابوالکلام آزادؒ

مولانا ابوالکلام آزادؒ کی شخصیت بہت سے خواص کا مرکب تھی۔ آپ نے ابتداءً علامہ اقبال کے فکر سے متاثر ہو کر حکومتِ الٰہیہ کے قیام کا نعرۂ مستانہ بلند کیا۔ اور اس کیلئے باقاعدہ ایک جماعت "حزب اللہ" کے نام سے قائم کی۔ آپ علامہ شبلی نعمانیؒ کے براہِ راست شاگرد تھے۔ قرآنِ مجید سے ایک خاص شغف اور محبت آپ کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ آپ کی سورۃ فاتحہ کی تفسیر اردو ادب کا شاہکار تو ہے ہی، قرآنِ مجید کے جلال و جمال کا بھی حسین مرقّع ہے۔ اور بقول ڈاکٹر صاحبؒ ہی کہ سورۃ کہف کے بعض مضامین پر آپ کی تحقیق و تدقیق کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ آپ نے "الہلال" اور "البلاغ" جیسے پرچوں کے ذریعے اسلامی نظام کے قیام کی اہمیت کو خوب واضح کیا۔ نیز یہ کہ آ پ کی آواز کی گھن گھرج نے ہندوستان کے طول و عرض کو ہلا کر رکھ دیا۔ آپ کی سیاسی بصیرت، دور اندیشی اور حکومتِ الٰہیہ کے قیام کیلئے آپ کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے شیخ الہندؒ جیسی بابغہ روزگار شخصیت نے علماء کرام کو یہ تجویز پیش کی کہ "اِس نوجوان نے ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد کرایا ہے لہٰذا ہمیں چاہیئے اِس کو اپنا امام مان کر اِس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ساری زندگی غلبہ و اقامتِ دین کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ آپ نے مولانا ابواکلام آزادؒ کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے اور اپنے علم اور غور و فکر کی بنیاد پر بہت ہی کم عمری میں "الجہاد فی السلام" جیسی معرکۃ الآراء کتاب لکھی جس میں جہاد کے اصل تصور اور غلبہ دین کی جدوجہد کو واضح کیا۔ آپ نے مولانا آزاد ہی کی حزب اللہ کی طرز پر حکومتِ الٰہیہ کے قیام کیلئے "جماعتِ اسلامی" کی بنیاد رکھی۔ آپ نے تصورِ دین اور تصورِ فرائضِ دین کو بخوبی واضح کیا۔ اِس کے علاوہ مولانا مرحوم کی ایک بہت بڑی خدمت یہ ہے کہ اسلام کا انقلابی فکر جو علامہ اقبال مرحوم کے ہاں صرف شاعری کی شکل میں تھا کو آپ نے اپنے قلم کی سلاست کے ذریعے نثر میں خوب واضح کیا۔ اور بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ آپ بلاشبہ اسلامی کے انقلابی فکر کو جامع و مانع انداز میں پیش کرنے کے اعتبار سے ایک "عمرانی مفکر" کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ آپ نے جماعتی زندگی سے متعلق بہت سے امور کو اپنی تحاریر مین بیان کیا۔ مولانا مودودیؒ نے "تفہیم القرآن" کے عنوان سے قرآنِ مجید کی شاہکار تفسیر لکھی جسے بالخصوص کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لوگوں میں قبولِ عام حاصل ہوا۔ پچھلی صدی کے نصفِ اوّل میں مغربی تہذیب کے ہمہ گیر استیلاء کے نتیجے میں جو مسلمان مغربیت کا شکار ہو چلے تھے اُن میں ہزاروں نہیں بلکہ فی الواقع لاکھوں لوگوں کو دوبارہ دینِ اسلام کے قریب لانا اور اُن کے باطنی ارتداد کو قرآن کے نور سے دھونے کا کام مولانا کی تفہیم القرآن اور اُن کی دیگر تصانیف نے سر انجام دیا ہے

ڈاکٹر اسرار احمدؒ

ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ نے درج بالا آٹھ شخصیات سے کسبِ فیض کیا اور ہمیشہ اُسے بیان بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحبؒ کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ ان آٹھوں شخصیات کی ہر بات سے مجھے کامل اتفاق ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اِن سب حضرات سے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن کہیں کہیں ان سے اختلاف بھی ہے۔ اسلام کا انقلابی فکر ہو یا حقیقتِ ایمان کی اعلیٰ سطح کی علمی بحثیں، فرائضِ دینی کا جامع تصور ہو یا جماعت سازی کے مشکل مراحل، قرآنِ مجید کے ساتھ محبت اور اُس کا پڑھنا پڑھانا ہو یا اس کے مضامین اور نظمِ قرآن اور تدبّرِ قرآن کے مختلف پہلو، اِن تمام علوم ومسائل و معاملات کی بنیادی تعلیم ڈاکٹر صاحبؒ نے انہیں آٹھوں شخصیات ہی سے بالواسطہ اور بِلا واسطہ حاصل کی۔ تفسیرِ عثمانی کے متعلق ڈاکٹر صاحبؒ فرمایا کرتے تھےکہ "اِس کے ذریعے میں اسلاف کے ساتھ چمٹا ہوا ہوں۔" جبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے دروسِ قرآن کا سلسلہ ہو یا رمضان المبارک کی راتوں میں دورۂ قرآ ن ہو، ہمیشہ تفسیرِ عثمانی ہی کے ذریعے اِس خدمت کو انجام دیا۔ ہماری رائے میں ڈاکٹر صاحبؒ کی اُن خدماتِ دینی کا تذکرۃ بہت ضروری ہے جن پر آپ نے منظم انداز میں کام کیا:

  • دعوت و تحریک رجوع الی القرآن۔ یعنی قرآن کا پڑھنا اور پڑھانا۔ قرآن کورسز کرانا وغیرۃ
  • حکمتِ ایمان اور فلسفے سے متعلق اعلیٰ علمی سطح کے مسائل کو وقت کی اعلیٰ علمی سطح کے مطابق پیش کرنا
  • عہدِ حاضر کے باطل فلسفوں اور الحاد و مادّہ پرستی سے لیس نظریات میں خُذ مَا صَفَا دَع مَا کَدَر کے اصول پر چلتے ہوئے علمِ کلام میں اپنا حصّہ ڈالنا۔
  • اسلام کے سیاسی، معاشی اور سماجی نظام یعنی اسلام کے انقلابی فکر یا اسلام کے عمرانی فکر کو پیش کرنا
  • مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے عائد کردہ فرائض کا صحیح ادراک و شعور اور اُن کی مسلسل دعوت و تبلیغ کرنا۔
  • نکاح اور شادی بیادہ سے متعلق اسلام کی تعلیمات کو بڑے پیمانے پر عام کرنا
  • تحریکی زندگی کے پیچ و خم اور اتار چڑھاؤ کو قرآن وسنت کی بنیاد پر دلائل کے ساتھ واضح کرنا
  • ملک و قوم کو مشکلات اور مسائل سے نکلنے کیلئے عوام اور حکمرانوں کو مشورے دینا
  • امتِ مسلمہ کی زبوں حالی سے نکلنے کی قرآنی راہ تجویز کرنا اور اُسے دلائل و براہین سے مزیّن کر کے واضح کرنا۔
  • ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بدلتی سیاسی صورتحال کے پیشِ نظر مستقبل کی پیش بندی کرنے کی طرف توجہ مبذول کروانا اور مستقبل میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کیلئے ممکنات اور خطرات و خدشات پر بات کرنا۔ نیز یہ کہ یہودی عالمی ایجنڈے کو بے نقاب کرنا
en_USEnglish